پشتون تحفظ تحریک: پس منظر و مختصر تعارف

تحریر: سنگین باچا

26 جنوری 2018ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ’محسود تحفظ موومنٹ‘ کے نام سے ایک احتجاجی لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ اس لانگ مارچ کا فیصلہ منظور پشتین، علی وزیر اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اس وقت کیا جب وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران بچھائے گئے مائنز (بارودی سرنگیں) سے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ چیک پوسٹوں پرلمبی لمبی قطاریں اور لوگوں کو تنگ کرنا روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ لوگ اٹھائے جا رہے تھے۔ وطن کارڈ کے نام پر لوگوں کو ذلیل کیا جا رہا تھا۔ ان سارے اور ان کے علاوہ کئی دیگر مسائل کے خلاف اس لانگ مارچ کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ موومنٹ تب منظر عام پر آگئی جب کراچی میں مقیم محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کا 12 جنوری کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے کے بعد اس مارچ کے ساتھ پختون عوام بڑے پیمانے پر جڑتے گئے اور یہی وجہ تھی کہ پشاور پہنچنے سے پہلے پہلے اس تحریک کا نام تبدیل کر کے ’پختون تحفظ موومنٹ‘ رکھ دیا گیا۔ پشاور سے نکلنے کے بعد یہ مارچ چارسدہ ، مردان، صوابی اور ترنول سے ہوتے ہوئے یکم فروری کو اسلام آباد پہنچا اور وہاں پختون جرگے کے نام سے دھرنا دیا گیا۔
پختونوں کا بڑے پیمانے پر اس مارچ کے ساتھ جڑنا کوئی حادثاتی بات نہیں تھی۔ بلکہ اس کے لئے معروضی حالات کئی دہائیوں سے تیا رہو رہے تھے۔ انگریزوں کے دور میں پختون قبائل نے اُن کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں اور اس مزاحمت کے نتیجے میں پختون قبائل پر بے جا ظلم کیا گیا۔ اس کے علاوہ روس میں بالشویک انقلاب آنے کے بعد انگریزوں نے اس خطے کو بفر زون کے طور پر رکھا اور یہا ں کے باسیوں کو تعلیم اور جدید سہولیات سے دور رکھا گیا اور یہاں پر ’FCR‘ جیسے غیر انسانی قانون کو لاگو کیا گیا۔ جس میں یہاں کے حاکم طبقے کے لئے آسائشیں تھی لیکن پختون محنت کشوں کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا گیا اور ا ن میں غم و غصے کا لاوا جمع ہو نے لگا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس خطے کو اسی طرح رکھا گیا جس طرح انگریزوں نے رکھا تھا۔ بعد میں افغانستان میں 27 اپریل 1979ء کو نورمحمد ترکئی کی سربراہی میں ثور انقلاب ہوا۔ یہ وہ انقلاب تھا جس نے افغانستان میں صدیوں سے موجود فرسودہ قبائلی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ساتھ تمام فرسودہ روایات کو چیلنج کیا جس سے افغانستان کا معاشی اور سماجی نقشہ بالکل بدلنے لگا اور یہاں پر لوگوں کو تعلیم، روزگار، علاج جیسی سہولتیں مفت ملنے لگیں۔ جہا ں پر یہ انقلاب افغانستان کے عام لوگوں کے لئے خوشی کا پیغام لے کر آیا تھا وہاں سامراجی طاقتوں کے لئے اس انقلاب نے خطرے کے گھنٹی بجائی تھی۔ اس انقلاب کے اقدامات سے آس پاس کے ممالک کا محنت کش طبقہ اثر لے رہا تھا اوراس کے پھیلنے کے امکانات موجود تھے۔ انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر نور محمد ترکئی نے بھی کہا تھا کہ یہ انقلاب صرف افغانستان کا انقلاب نہیں بلکہ پورے جہاں کے محنت کشوں کا انقلاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنے سامراجی عزائم کے لئے ضیا آمریت کے تعاون سے ڈالر جہاد کا آغاز کر دیا۔ پاکستان کے اندر مدرسوں کا جال بچایا گیا جس میں سی آئی اے نے ’مجاہدین‘ کو ٹریننگ دینا شروع کی۔ اس سلسلے میں پختون بیلٹ، جو افغانستان کے ساتھ ہے، کو استعمال کیا گیا۔ یہاں پر کلاشنکوف کلچر عام کر دیا گیا۔ افغانستان میں تو بائیں بازو کی حکومت داخلی غداریوں کی وجہ سے 1992ء میں گر گئی لیکن اس کے بعد کالے دھن کے نشے میں بدمست دہشت گرد اپنے آقاؤں کے اختیار سے نکلنے لگے۔ اور 9/11 کے بعد یہاں پر ایک نئی جنگ کا آغاز کیا گیا۔ پاکستانی ڈیپ سٹیٹ نے ’Strategic Depth‘ کی پالیسی جاری رکھی اور امریکہ سے دوغلے تعلقات استوار کئے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن  میں عام لوگ ہی برباد اور دربدر ہوئے۔ لیکن اس سب کے بعد جب احسان اللہ احسان جیسے انسانیت کے قاتلوں کو ریاستی مہمان بنایا گیا تو اس ڈرامے کو عام لوگ دیکھ رہے تھے اوران کے غم و غصے کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ ظلم کی بھی ایک حد ہو تی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں پنپنے والا یہ لاوا پختون تحفظ موومنٹ کی شکل میں منظر عام پر آگیا۔
اسلام آبادمیں د ھرنا دینے کے بعد پختون تحفظ موومنٹ کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت کوشش کی گئی کہ اس احتجاج کو صر ف راؤ انوار کی گرفتاری کے مطالبے تک محدود کیا جائے لیکن اس کوشش کو علی وزیراوران کے دیگر ساتھیوں نے ناکام بنا دیا۔ دھرنے میں مختلف لوگوں نے تقریریں کی جن میں علی وزیر ، منظور پشتین اور اس تحریک کے دیگر قائدین بھی شامل تھے۔ کشمیر سے جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کا خصوصی وفد بھی اس دھرنے میں اظہارِ یکجہتی کے لئے آیا تھا۔ اس کے بعد جب دھرنے سے شرفا چلے گئے تو اس سے ایک با ت واضح ہو گئی کہ یہ مسائل صرف غریب اور محنت کش پشتونوں کے ہیں۔ اسلام آباد دھرنے کے اختتام کے بعد پختون تحفظ موومنٹ نے اپنی کمپئین جاری رکھی اور مختلف جگہوں پر جلسے شروع کر دئیے۔ اس سلسلے میں خانوزئی، ژوب، قلعہ سیف اللہ اور کوئٹہ میں بڑے بڑے جلسے کئے گئے۔ ان جلسوں کے دوران ’PTM‘ کے قائدین پر ایف آ ئی آر بھی درج کی گئی لیکن یہ دھونس تحریک کے کارکنوں پر کوئی اثر نہ ڈال سکی۔ 24 مارچ کو عارف وزیر جو اس تحریک کا سرگرم کارکن تھا کو گرفتار کیا گیا تو 26 مارچ کو پختون تحفظ موومنٹ نے پورے ملک میں عارف وزیر کی رہائی کے لئے احتجاج کی کال دی۔ سینکڑوں لوگوں نے جگہ جگہ مظاہرے کئے۔ ان مظاہروں میں منفرد مظاہرہ کراچی پریس کلب کے سامنے ہوا جس میں پشتونوں کے علاوہ پنجاب، سندھ، بلوچستان ، سرائیکی خطے اور کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے بھی شرکت کی اور یکجہتی کا پیغام دیا۔ ملگ گیر احتجاجوں کی وجہ سے عارف وزیر کو 30 مارچ کو رہا کردیا گیا۔ اب پختون تحفظ موومنٹ پورے خیبر پختونخواہ میں جلسے کر رہی ہے اور پختون محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں پشاور میں 8 اپریل کا جلسہ بہت اہمیت کا حامل تھا جس میں شرکا کی تعداد کا تخمینہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک لگایا جا رہا ہے۔ یہ جلسہ پیسے کی اِس مروجہ سیاست سے بالکل مختلف تھا جس میں ہزاروں غریب اور مظلوم لوگ نہ صرف شریک ہوئے بلکہ جلسے کے اخراجات بھی اپنے چندے سے پورے کئے۔ کوئی وی آئی پی لوگ یا سیاسی شرفا موجود نہیں تھے۔ ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کارپوریٹ میڈیا نے جلسے کا مکمل بلیک آؤٹ کیا جس سے اس نام نہاد آزاد میڈیا کا مکروہ کردار بھی کھل کر عوام کے سامنے آیا ہے۔ لیکن اِس جلسے نے تحریک کو ایک جذبہ اور اٹھان عطا کر دی ہے۔
اس تحریک نے ایک اور چیز کو بھی عیا ں کر دیا ہے اور وہ روایتی قوم پرست لیڈرشپ ہے ، جس نے اس تحریک سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکمرانوں کے مسائل اور محنت کشوں کے مسائل میں فرق موجود ہے۔ حکمران صرف اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ان کو غریب عوام کے مسائل کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ بظاہر یہ تحریک ایک قوم پرست تحریک نظر آتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں جن مسائل کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے وہ تمام غریب طبقے کے مسائل ہیں۔ اس تحریک کی کامیابی اس سے نہیں ہونے والی کہ پختون حکمران اور محنت کش طبقہ اتحاد بنا لیں بلکہ اس تحریک کی کامیابی اس عمل سے ہو گی کہ پختون محنت کش اپنے ہی طبقے کے ساتھ جڑت بنالیں اور اس لڑائی کو ایک ساتھ لڑیں۔ اس سلسلے میں 21 اپریل کو کشمیر میں’ JKNSF‘ پختون تحفظ موومنٹ کے لئے جلسے کا اہتمام کریگی جس میں کشمیر ی اور پختون محنت کشوں اور طلبہ کو بلایا جائے گا۔ اس کے بعد ’RSF‘ یعنی انقلابی طلبہ محاذ اور دوسری ترقی پسند طلبہ تنظیمیں 22 اپریل کو لاہور میں ایک جلسے کا انعقادکریں گی جس میں تمام قومیتوں کے محکوم اور مظلوم عوام کو بلایا جائے گا۔ اس کے بعد دیگر شہروں میں اس طرح کے پروگرامات کا انعقاد کیا جائے گا۔ پختون تحفظ موومنٹ کی اس لڑائی کو اگر درست لائحہ عمل، طریقہ کار اور انقلابی نظریات کے ساتھ لڑا جائے تو یہ لڑائی نہ صرف پختونوں بلکہ ملک اور خطے کے باقی تمام مظلوم اور استحصال زدہ عوام کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

%d bloggers like this: