اچھےطالبان کا ٹانک میں سرکاری سرپرستی میں جرگہ

سرکاری ملکان، سینیٹر صالح شاہ اور ’اچھے‘ طالبان کا ٹانک میں سرکاری سرپرستی میں جرگہ

میں اس بات کی طرف اشارہ دیتا رہا ہوں کہ ہمیں ریاستِ پاکستان اور اسکے اداروں سے کسی قسم کی بھلائ کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی خوش فہمی کا شکار رہنا چاہیے۔ اسلام آباد میں پشتون دھرنے کے نتیجے میں ریاست نے اگر ٹارچر سلوں سے کچھ مقید لوگوں کو چھوڑا ہے، اور وزیرستان میں داخلے کیلیئے وطن کارڈ جیسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اضافی شرائط سے دستبرداری کا عندیہ دیا ہے اور اسی طرح کے کچھ اور اقدامات اٹھائے ہیں، تو یہ کسی بھی طور ریاست کی پالیسی میں کسی بنیادی تبدیلی کی عکاس نہیں۔ ریاست نے یہ ’رعایتیں‘ پشتونوں کی مجموعی قوت کے دباؤ تلے ’مجبور‘ ہوکر دی ہیں۔ یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ٹانک میں منعقد جرگہ ریاست کی اصل پالیسی کی عکاسی ہے۔ بظاہر کچھ ’رعایتیں‘ دیکرریاست پشتونوں کو بحیثیتِ مجموعی تعاون کا اشارہ دے رہی ہے لیکن بیک وقت ان جرگوں کے زریعے وہ پشتون تحریک کی بنیادیں کھوکھلی کر نے کی سازش میں سر گرمِ عمل ہے۔ دیکھیے کس طرح ریاستی اداروں نے وظیفہ خور محسود ملکان، بکاؤ مال سینیٹر صالح شاہ اور ’اچھے‘ طالبان کو ایک فورم پر اکٹھا کیا ہے اور کس طرح ان میر جعفروں اور میر صادقوں کے ہاتھوں ان تمام پشتونوں پر ملک سے غداری کے ٹھپے لگوارہی ہے جنہوں نے اسلام آباد دھرنے کو کامیاب کیا۔ ماسید قوم میں نفاق ڈالنے کا مقصد پشتونوں کی مجموعی تحریک کو نقصان پہنچانا ہے۔ جسمیں بظاہر ریاست کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔

جابر ریاست کے حق میں اور پشتون لانگ مارچ کیخلاف ٹانک میں منعقد یہ جرگہ اور چیزوں کے علاوہ ہم پر یہ بھی آشکارا کرتا ہے کہ ریاست کیوں قبائلی علاقوں میں کسی بھی قسم کی آئینی اور قانونی تبدیلی لانے سے گریزاں رہی ہے۔ ان وظیفہ خور محسود ملکان، قبائلی سینیٹرز اور ’اچھے‘ طالبان کے زریعے ریاست ان علاقوں کی حریت پسند عوام کو ’کنٹرول‘ میں رکھ سکنے، اپنے ظالمانہ اور جابرانہ پالیسی کواب تک دوام دینے ، اور ان علاقوں کو پاکستان کا ’سٹریٹیجک پچھواڑا‘ رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اسلام آباد لانگ مارچ نے ریاستی اداروں کے خوف و شکوک و شبہات کو ایک بار پھر ہوا دی کہ قبائلی علاقوں می آئینی، قانونی اور جمہوری اصلاحات کے بعد کا سیاسی نقشہ کیسا ہوگا۔ یقینا وہ سیاسی منظر نامہ ہزاروں منظور پشتینوں کو جنم دیگا جو یہ جابر ریاست اپنے لیے مرگ سمجھتی ہے۔ منظور پاشتین مثبت تبدیلی کی علامت ہے جبکہ حکومت دوست ملکان، پارلیمانی ممبران اور طالبان موجودہ نظام کے دوام کی علامت ہیں۔ چونکہ منظور پاشتین اس موجودہ فرسودہ نظام کے لیے خطرہ ہے، جن لوگوں کے اس نظام سے مفادات وابستہ ہیں وہ ایک ہے چھت تلے اکٹھے ہو رہے ہیں۔

محمد زبیر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

%d bloggers like this: