گیلہ من، گلے میں پھنسا ہوا درد ۔ شازار جیلانی

گیلہ اردو میں گِلہ ہو جاتا ہے اور وزیر اس کے قبیلے کا نام ہے۔ گیلہ من (د) کا مطلب ہے شکوہ کناں، ، شکایت کنندہ یا متاثرہ فریق۔ وہ اردو میں شاعری کرتا تو آپ کو حبیب جالب یاد دلاتا۔ وہی دبنگ الفاظ، وہی کاٹ دار اشعار، وہی نے نئے اور نادر خیالات اور لطیف شاعرانہ بندشیں، وہی ضمیر جھنجھوڑنے والے عنوانات اور وہی کچوکے لگانے کا انداز۔

گیلہ من کو پختون تحفظ مومنٹ نے سرحد کے آرپار پہچان دی ہوئی ہے، لیکن پختون تحفظ مومنٹ نہ بھی ہوتی، تو جلد یا بدیر گیلہ من وزیر اپنی جاندار اور بامقصد شاعری کی وجہ سے پشتو سمجھنے والوں کیلئے نظر انداز کرنا مشکل ہوجاتا۔

وہ امن سے محبت کرنے والا ایک حساس انسان ہے، جس نے اسے ظلم، نا انصافی اور عدم مساوات کے خلاف اپنی انقلابی شاعری اور کاٹ دار تقریروں کے ذریعے لڑنے والا ایک مزاحمت کار بنا دیا ہے۔

وہ پنجاب میں ہوتا تو مشاعرے لوٹتا اور وی آئی پی ہوتا۔ لیکن وہ اسلام آباد میں ہے۔ اس کا جسم زخم زخم، پنبہ پنبہ ہے۔ اس کی کھوپڑی چٹخی ہوئی ہے۔ اس کی نبض کی دھمک اور دل کی دھڑکن مشینوں کے ذریعے ماپی جا رہی ہیں۔ اس کی سانسیں وینٹی لیٹر کی مرہون منت ہیں۔ کون کون آکر اس کے قریب کھڑا ہوجاتا ہے، اور برداشت نہیں کر پاتا تو چپکے چپکے سسکیاں لیتا ہے، اور کون خود ہر قابو نہ پاکر باہر کوریڈور میں بھاگ کر چیخیں مارنے لگتا ہے، یہ گیلہ من وزیر نہیں جانتا۔

اگر یہ ظلم کسی اور کے ساتھ ہوا ہوتا، تو گیلہ من ہر بڑا دروازہ کھٹکھٹاتا، کہ صاحب! خدا کیلئے! میرا دوست تکلیف میں ہے، اسے سانس لینے میں دقت ہے، اس کی نبضیں ڈوب رہی ہیں، اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہیں، اس کا بلڈ پریشر نارمل نہیں، اسے دیکھیں۔ علاج کریں۔ اسے بچائیں۔ کیونکہ گیلہ من ایسا ہی درد مند اور ہمدرد انسان ہے۔

اس کے دوست اور دلدار، اس کی شاعری کے دیوانے، اس کی مزاحمت کے پرستار، اس کے چاہنے والے اور بہی خواہ، خوفزدہ کونجوں کی طرح ایک دوسرے کی گردن میں گردن ڈالے ایک ایک حرکت، ایک ایک سرسراہٹ پر سہم جاتے ہیں۔ سب رونا چاہتے ہیں لیکن اس کی بجائے ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں ۔

میں نہیں جانتا کہ اس تحریر کو کس طرح ختم کردوں۔ منظور پشتون کو حوصلہ دوں اور بتادوں، کہ قوم ایسی حالت میں لیڈر کی طرف دیکھتی ہے۔ سمندر بنو، یہ لیڈرشپ کا امتحان ہے، یا تمام پختونوں کو بتادوں کہ اجتماعی طور پر رونے کا اہتمام کردو، تاکہ گلے میں پھنسا ہوا درد آنسو بن کر بہہ نکلے۔

تحریر ۔ شازار جیلانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

%d bloggers like this: